Why People Face Loss in Stocks Trading Part 4

img
Why People Face Loss in Stocks Trading Part 4
Why people face loss in stock market

بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مثبت سوچ سے ہر کام ممکن ہو سکتا ہے۔مگر حقیقت کا اس بات سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ صرف مثبت سوچ کسی بھی شخص کی کامیابی کی گارنٹی نہیں ہوا کرتی ۔بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ مثبت کوششیں اور اقدامات آپ کی کامیابی کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔کچھ لوگوں کو شائد میری بات سے اختلاف ہو گا مگر اختلافات رکھنے سے حقائق بدل نہیں جایا کرتے۔میں چاہے کتنی ہی مثبت سوچ کا مالک کیوں نہ ہوں میں کسی شخص کے دل کا کامیاب آپریشن نہیں کرسکتا مر جائے گا اگلا آدمی۔کسی کے دل کاکامیاب آپریشن کرنے کے امکانات اس شخص کے مجھ سے کئی گنا زیادہ ہونگے جس کے پاس مطلوبہ مہارت ہو گی۔ جس نے اس آپریشن سے پہلے اس کو سیکھنے کے لیے مطلوبہ کوشش اور اقدامات کیے ہونگے۔کامیابی کے لیے مثبت سوچ کو مثبت اقدامات کی پشت پناہی حاصل ہونی چاہیے ورنہ خالی مثبت سوچ انسان کو کبھی بھی اپنی منزل تک لے جانے کے لیے کافی نہیں ہوتی یہ بات میں اپنے تیں نہیں کہہ رہا بلکہ آپ کسی بھی کامیاب شخص کی کہانی اٹھا کے دیکھ لیں آپ خود بخود قائل ہو جائیں گے۔عالمی باکسنگ چمپئین محمد علی نے کہا تھا کہ انسان کو کامیاب ہونے کے لیےقابلیت بھی چاہیے اور ارادہ بھی چاہیے۔ان دونوں کا ساتھ میں ہونا اشد ضروری ہے ایک کے بنا دوسری کام نہیں کرے گی اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ ارادے کی اہمیت قابلیت سے قدرے زیادہ ہوتی ہے۔کیونکہ جب  رنگ میں میرے مخالف مجھے مار کے گرا دیا کرتے تھے تو اس وقت میرا ارادہ مجھے میری قابلیت سے زیادہ تقویت دیا کرتاتھا۔کیونکہ قابلیت تو پہلے ہی مار کھا کے گرچکی ہوتی تھی اس وقت میرا ارادہ ہی تھا جو مجھے بار بار للکارتا تھا کہ اک بار پھر سے اٹھ جاؤ اک بار پھر سے اٹھ جاؤ۔اور میں کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستانی انویسٹر صرف اپنی مثبت سوچ کے بل بوتے پہ مارکیٹ سے کمانے نکل پڑتے ہیں ۔ نہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ اور مارکیٹ میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔اور پھر نتیجہ سب کا ایک جیسا ہی نکلتا ہے۔ مارکیٹ میں اپنی جمع پونجی لٹاکر بدھو گھر کو لوٹ آتے ہیں الزام پھر بھی مارکیٹ کو دیتے ہیں کہ یہ تو ہے ہی جوا اس سے تو کوئی کما ہی نہیں سکتا۔کبھی کسی نے رک کر یہ نہیں سوچا کہ میں نے مارکیٹ کو کتنا سمجھا صرف مثبت سوچ کے ساتھ کیا میں نے ایسے مثبت اقدامات کیے کہ میں کامیا ب ہو پاتا۔ اگر نہیں کیے تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کاروبار کو برا بھلا کہے۔ایک ٹریڈر کی تشبیہ ایک اتھلیٹ سے دی جاتی ہے اورجس طرح ایک  ایتھلیٹ پندرہ منٹ کی پرفارمنس کے لیے پندرہ سال تیاری کرتا ہے  بالکل اسی طرح ایک ٹریڈر بھی  ایک ٹریڈ کے لیے پہلے سالوں تک مارکیٹ کو سمجھتا ہے ہر پہلو سے مارکیٹ کو سیکھتا ہے اور پھر  گھنٹوں ریسرچ کرتا ہےاس ایک ٹریڈ کے لیے تب جا کر اسے کامیابی ملتی ہے مگر ہمارے یہاں معاملہ کچھ الٹ ہے۔ لوگ مارکیٹ کھلتے ہی ٹریڈ ڈالنے کے لے باولے ہوے ہوتے ہیں مگر  شام کو تھوڑا وقت اس ٹریڈ کے لیے پلاننگ کرنے کی بجاے رات ساری وہ خوابوں کے گھوڑے پر  سوار ہو کر وہ ایک صبح درخشاں کے لیے پر امید رہتےہیں۔مارکیٹ میں آواز لگتی ہے تصحیح پوری ہو گئی اور وہ اپنی اسی مثبت سوچ کے سہارے مارکیٹ میں انٹری لے لیتے ہیں کہ آواز لگانے والا ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا۔ پاکستان میں اسی فیصد انویسٹرز کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ تصحیح یا کوریکشن کس بلا کا نام ہے بس وہ سنی سنائی پہ عمل کرتے ہیں پچھلے حصے میں میں نے چونکہ اپنے قارئین سے یہ وعدہ کیا تھا کہ آئندہ حصے میں اس موضوع پر کھل کر بات کروں گا کہ تصحیح کسے کہتے ہیں اور اس کو کس طریقے سے آپ خود نکال سکتے ہیں۔مارکیٹ میں تصحیح کو فبوناچی کوریکشن یا فبوناچی ریٹریسمنٹ کہا جاتا ہے اور اس کو فبوناچی گولڈن رولز سے ہی نکالا جاتا ہے مگر میں آسان بھاشا میں بات کروں گا تاکہ ہر شخص کو اچھی طرح سے سمجھ آ جاے کہ یہ بلا کیا ہے۔تصحیح کے معروف ترین تین لیول ہوتے ہیں ۔38.2فیصد،50فیصد اور 61.8فیصد۔اب اس بات کی وضاحت سے پہلے کہ وہ کونسی رقم ہے جس کی ہم یہ تینوں فیصد نکالیں گے میں ایک بات کی وضاحت کرنا مناسب سمجھوں گا کہ پاکستان میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر مارکیٹ میں کسی بھی شئیر کی قیمت بڑھنے کے بعد گر رہی ہے تو کوریکشن ہے اور وہ شئیر اپنی کوریکشن پوری کرنے کے بعد مزید اوپر جا سکتا ہے مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ۔اگر کسی شئیر کی قیمت گرنے  کے بعد بڑھ رہی ہو تو وہ اپنی کوریکشن پوری کرنے کے بعد مزید گر بھی سکتا ہے۔اب کوریکشن کی مثال ایسے دے سکتا ہوں کہ مثال کے طور پر ایک شئیر کی قیمت دس روپے چل رہی تھی اس میں ریلی شروع ہوئی اور قیمت سترہ روپے تک پہنچ گئی سترہ روپے پر قیمت رک گئی اور اب قیمت گرنا شروع ہو گئی۔کوریکشن کے لیول نکالنے کے لیے ریلی کے اختتام کی قیمت میں سے ریلی کے آغاز والی قیمت کو منفی کر دیں جو جواب آے گا اب اس کا بالترتیب 38.2 فیصد، 50 فیصد اور 61.8 فیصدنکال لیں اب ان تینوں فیصد کے جو جواب آئیں گے ان کو ریلی کے اختتام والی قیمت میں سے منفی کر دیں آپ  کے پاس کوریکشن لیولز نکل آئیں گے۔  یعنی سترہ روپے میں سے دس روپے کو منفی کر دیں تو ہمارے پاس  جواب آے گا سات روپے اب اس سات روپے کا 38.2 فیصد ،50فیصد اور 61.8 فیصد نکال کر اس کو لکھ لیں۔جواب میں آپ کے پاس 38.2 فیصد کے لیے 2.67جبکہ 50فیصد کے لیے 3.50 اور61.8 فیصد کے لیے 4.32 روپے  نکل آئیں گے اب ان تینوں رقوم کو باری باری سترہ روپے میں سے منفی کرلیں اور جو جواب آئیں گے ان کو لکھ لیں۔ اب 38.2 فیصد کوریکشن 14.33 روپے پر پوری ہو جا ئے گی جبکہ 50فیصد کوریکشن 13.50 روپے پر پوری ہو گی اور 61.8فیصد کوریکشن 12.68 روپے پر پوری ہو جاے گی۔میرا نہیں خیال کہ اب کوریکشن یا تصحیح کے لیے کسی سافٹ وئیر کے آپ محتاج رہ گئے ہیں بلکہ اب یہ کام کاغذ پنسل سے خود ہی کر سکتے ہیں۔اور آپ خود تصحیح کی بنیاد پر اس شئیر کی متوقع سپورٹس خود نکال سکتے ہیں۔میرے  کچھ قارئین کو شائد یہ لگ رہا ہو گا کہ اتنی جمع تفریق کون کرے اور اکثر کا جواب تو یہ بھی ہو گا کہ اتنا وقت کون نکالے تو ان سے پھر میری گزارش ہے کہ براہ کرم جب مارکیٹ میں تصحیح یا کوریکشن کی غلط پیش گوئی کی وجہ سے کبھی آپ کو نقصان ہو تو پھر خدا را کبھی قسمت یا مارکیٹ کو الزام مت دیجیے گا کیونکہ یہ آپ کی اپنی غلطی ہو گی۔ کیونکہ قسمت  ہر چیز کو آپ کی مرضی کے مطابق ڈھال کر آپ کی خدمت میں پیش نہیں کر دیا کرتی۔ یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ عالمی اولمپک چمپئین مارک سپٹ نے 1972 میں 7 گولڈ میڈل جیتنے کے بعد یہ بات کہی تھی۔اگر آپ بھی سٹاک مارکیٹ سے کچھ کمانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بھی مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ مثبت اقدامات کرنے ہونگے ۔

میں نے اکثر لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ فلاں شخص پر تو مارکیٹ فدا ہے وہ جس بھی شئیر میں ہاتھ ڈالتا ہے وہ ہی اس کو منافع دیتا ہے ۔مگر کامیابی کے لیے اس شخص نے کتنے سال تیاگ دئیے یہ کوئی نہیں سوچتا۔اس شخص جیسا بننا ہر کوئی جاہتا ہے مگر اس شخص جیسا بننے کی قیمت چکانے کو کوئی تیار نہیں ہوتا ۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ رات کو سوئے اور خواب میں سارا علم اس کو ٹرانسفر ہو جائے۔جب بھی کوئی شخص میرے سامنے قسمت کا رونا روتا ہے تو میں اس کو ایک ایک شخص کو ایک کہانی ضرور سناتا ہوں اس لیے اپنے قارئین کے بھی گوش گزار کئے دیتا ہوں شائد کچھ لوگوں کو افاقہ ہو جاے۔  قارئین میں سے اکثر نے مائیکل فلپس کا نام سنا ہو گا وہ ایک تیراک تھا جو اولمپکس میں حصہ لیتا آ رہا تھا اس کو شہرت تب ملی جب اس نے 2008 میں اکیس یا بائیس گولڈ میڈل جیت کر  مارک سپٹ کا چھتیس سال پرانا ریکارڈ توڑا۔مارک سپٹ نے 1972 میں میونخ میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں 7 گولڈ میڈل جیتے تھے ۔اس وقت مارک سے ایک صحافی نے کہا مارک آج آپ کا لکی دن تھا آپ نے 7 گولڈ میڈل جیتے ہیں۔مارک کو بہت برا لگا اس نے صحافی کو اپنے پاس بلایا اور بولا آؤ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ قسمت نے مجھے کیا دیا ۔ کہنے لگا کہ میں 1968 میں میکسیکو میں تھا میں نے تیں گولڈ میڈل جیتے میں خوش تھا مگر مطمئن نہیں تھا ۔میکسیکو سے لیکر میونخ تک چار سال میں میں نے دس ہزار گھنٹے پریکٹس کی ہے۔ اگر تم اعدادوشمار میں اچھے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ تمھیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ اڑھائی ہزار گھنٹے سالانہ بنتا ہے اور اگر تمھاری گنتی اور بھی اچھی ہے تو تمھیں پتہ چل گیا ہو گا کہ اگر اتوار کو بیچ میں سے نکال دیں تو یہ آٹھ گھنٹے روزانہ میں نے  پریکٹس کی ہے۔مارک صحافی کو بولا آپ ایسا کیجیے اگلے چار سال آٹھ گھنٹے پانی میں بیٹھ جائیے آپ کا جسم سکڑ جا ے گا۔اور اس سے پوچھا اب بتاؤ کیا قسمت نے مجھے جتوا دیا ہے۔قسمت کا رونا رونے والے انویسٹرز کے لیے میرے پاس اس سے اچھی کوئی اور مثال نہیں تھی۔انشاءاللہ اگر زندگی نے موقع دیا تو اگلے حصوں میں اس بات کا زکر ہو گا کہ کوریکشن یا تصحیح کے بعد مارکیٹ کہاں جاتی ہے اور آپ ایک کاغذ قلم سے مارکیٹ کے اگلے ٹارگٹ کیسے نکال سکتے ہیں۔(جاری ہے۔۔۔) ۔

Share Post:


Explore