﷽
پاکستان میں 1992 سے پہلے فاریکس مارکیٹ کا شائد کم لوگوں کو ہی علم تھا۔ چند لوگ جانتے تھے کہ فاریکس ٹریڈنگ کونسی چڑیا کا نام ہے۔ مگر 1992 کے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ کے بعد پاکستان میں اچانک ہی ایک لہر چل نکلی ۔ہر شخص کو فاریکس ٹریڈنگ کے لیے مارکیٹنگ کی جانے لگی۔راتوں رات کروڑ پتی بننے کی بہت سی مفروضہ کہانیوں نے جنم لے لیا۔ کل کے فارغ التحصیل نوجوان خود کو فنانشل ایڈوائزر کہلوانے لگے۔لوگوں کو او ۔پی۔ایم۔(دوسرے لوگوں کا سرمایہ) کی سمجھ بوجھ آنے لگی تو حسب توقع پاکستانیوں نے اس لفظ اور اس نظریہ کی روح تک کو چھلنی کر کے رکھ دیا۔ لوگوں کی عمر بھر کی کمایاں لٹنے لگیں اور ایک طبقے کے چند مخصوص افراد راتوں رات کروڑ پتی بننے لگ گئے۔ایک کمپنی سے شروع ہونے والا یہ کام اتنی تیزی کے ساتھ پھلنا پھولنا شروع ہوا ۔ کہ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے گلی کوچوں میں فاریکس ٹریڈنگ ہاوس بننا شروع ہو گئےجنہوں نے لوگوں کو دن رات لوٹنا شروع کر دیا۔اب اس کام کی بانی کمپنی پاکستان میں ایک ہی سمجھی جاتی ہے اس کمپنی نے اپنے جس بھی ملازم کو کام سے نکالا اس نے کسی گلی کوچے میں جا کر اپنا ڈبہ کھول لیا ۔ کچھ لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ اس کمپنی میں رہیں گے تو کمیشن کا یہی پانچ دس فیصد ملے گا تو انہوں نے بھی اپنے ڈبے کھولنے کا سوچا تاکہ سارے کا سارا کمیشن خود کھا سکیں اور لاہور کے گلی کوچوں میں مزید فاریکس ہاوسز کھلنا شروع ہو گئے۔پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آنکھیں بند کر لیں اور ان لوگوں کو شہ ملنا شروع ہو گئی ۔نہ تو خود کو پاکستان میں فاریکس ٹریڈنگ کا بانی کہلانے والی اس کمپنی نے ہی پاکستانی قوانین کی کوئی پرواہ کی اور خود کو رجسٹر کروایا اور نہ اس کمپنی کی کوکھ سے جنم لینے والے ان خود ساختہ فنانشل ایڈوائزرز نے ہی تکلیف کی کہ اپنے ان ڈبہ فاریکس ہاوسز کو ریگولیٹ کروا لیں یوں یہ کالا دھنداآئے روز پھلتا پھولتا رہا۔ کالجز اور یونیورسٹیوں سے تازہ تازہ فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی پاکستان میں کمی نہیں تھی سو اس کمپنی نے نئے لوگوں کو نوکری کے مواقع فراہم کرنا شروع کر دئیے ۔ آئے روز نوجوانوں کے انٹرویوز کیے جاتے اور تھوڑی جانچ پھٹک کے بعد نوکری مل جاتی۔آزمائشی دورانیہ دو ماہ کا ہوتا جس میں ان نوجوانوں کو لوگوں کو مائل کرنا ہوتا تھا کہ لوگ اس کمپنی کے ساتھ انویسٹمنٹ کریں ۔ جو لوگ دو ماہ میں کوئی ایک بھی نیا کلائینٹ پھنسانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تھے ان کو کمپنی سے نکا ل دیا جاتا اور باقی چند گنے چنے کامیاب امیدوار اپنی نوکری کو جاری رکھتے اور سادہ لوح عوام کو مارکیٹ میں ٹریڈنگ کے لیے لاتے رہتے۔جن لوگوں کے بھی انٹرویو لیے جاتے تھے اس میں صرف ان باتوں کا خاص خیال رکھا جاتا کہ لڑکے کا فیملی بیک گراونڈ کیا ہے اس کی فیملی میں بزنس مین بھی ہیں کہ نہیں اور کیا لڑکا بول سکتا ہے کہ نہیں ۔اور سول سوسائٹی میں اس کے تعلقات کس قبیل کے لوگوں سے ہیں جب لڑکے کی سلیکشن ہو جاتی تو اس کو صرف تین دنوں کی ٹریننگ دی جاتی جس کا خاص مقصد لڑکوں کو مارکیٹنگ کی تربیت دینا ہوتا اب چونکہ باقی ڈبہ فاریکس ہاوسز بھی اسی کمپنی سے سیکھ کے گئے ہوئے تھے سو انہوں نے بھی اس روش کو برقرار رکھا اور یوں پاکستان میں ہر بزنس مین کو آئے روز نت نئے نمبرز سے مارکیٹنگ کالز آنے لگیں۔شروع میں یہ تما م کمپنیز اپنے لڑکوں کو تعلقات کی بنیاد پر مارکیٹنگ کرنے کو ترجیح دینے پر آمادہ کرتیں کیونکہ کولڈ مارکیٹنگ ایک مشکل کام ہوتا ہے اور اس سے لڑکے کے بد دل ہونے کا خدشہ رہتا تھا اس لیے لڑکے اپنے خاندان یا اپنے رشتے داروں کے جاننے والوں کو پہلے اپنا شکار بنانے کو ترجیح دیتے اور اپنی لا علمی کی وجہ سے اپنے جاننے والوں کے خون میں ہی ہاتھ رنگ لیتے تھے۔ٹریننگ کا مواد آج بھی فاریکس مارکیٹ کے ان قانونی یا غیر قانونی بروکریج ہاؤسز میں وہی چلا آ رہا ہے جس میں اولیں ترجیحات میں یہ چیزیں شامل ہیں کہ مارکیٹنگ کال کیسے کرنی ہے کلائینٹ سے ملاقات کے لیے وقت کیسے لینا ہے اور حتی المکان کوشش کرکے کلائینٹ کو اس بات پے کیسے قائل کرنا ہے کہ وہ آپ کے آفس آئے بجائے اس کے کہ آپ اس کے پاس جائیں۔دوسری اور سب سے لازمی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کبھی بھی مارکیٹنگ کرتے وقت کلائینٹ( جس کو تا حال پرسپیکٹ ہی کہا جاتا تا وقتیکہ وہ اپنا اکاونٹ کھول لے ۔ مگر میں اس کو کلائینٹ ہی لکھوں گا اپنے قارئین کی آسانی کے لئے۔)کو ایک یہ سمت میں مارکیٹ کی ایڈوائس نہیں کرنی۔ مثال کے طور پر اگر کسی کلائینٹ کو آپ سونے کی تجارت کی ترغیب دے رہے ہیں اور اس وقت عالمی منڈی میں سونے کی قیمت ایک ہزار دو سو چار ڈالر فی اونس چل رہی ہے تو لڑکے کو یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے کسی بھی پراسپیکٹ کو یہ نہیں بولے گا کہ سونا آنے والے دنوں میں مہنگا ہو جائے گا بلکہ وہ اپنے کلائنٹ کو مارکیٹنگ کال میں یہ ہی بتائے گا کہ اگر سونے کی قیمت بارہ سو ڈالر سے نیچے گئی تو یہ گیارہ سو ستر ڈالر تک چلا جائے گا اور اگر بارہ سو دس سے اوپر چلی گئی تو سونا آنے والے دنوں میں بارہ سو تیس ڈالر میں میلے گا۔ یہ مبہم بیان اس لیے دلوایا جاتا ہے کہ مارکیٹ کے رحجان کا لڑکے کو اندازہ نہیں ہوتا اور جو روزمرہ کی ریسرچ رپورٹ نام نہاد ریسرچ ڈیپارٹمنٹ اس تک پہنچاتا ہے وہ بھی قابل اعتماد نہیں ہوتی۔اس لئے مارکیٹ چاہے جس بھی سمت میں جاے لڑکا جب اپنے کلائینٹ کو دوبارہ فون کال کرے تو اس کو ہزیمت نہ اٹھانی پڑے کہ اس کی پیش گوئی غلط ثابت ہو چکی ہے بلکہ وہ انپے کلائنٹ کو کہہ سکے کہ سر دیکھیں میں نے بولا تھا نہ کہ اگر یہ لیول ٹوٹ گیا تو مارکیٹ یہاں جائے گی۔ اور ہمارا سادہ لوح انویسٹر بیچارا اس کے مبہم بیان کے پیچھے چھپی دوغلی حقیقت کو جانے بنا ہی اس مارکٹیر کا دلدادہ بن جاتا ہے۔لفظ انسان کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں لفظ محرم کومجرم،ظالم کومظلوم اور اناڑی کو کھلاڑی بنا دیا کرتے ہیں۔ چند شاطر لوگوں کے سکھائے ہوے الفاظ اس لڑکے کا ایک اچھا امیج اس کے کلائینٹ کے ذہن میں نقش کر جاتے ہیں۔اور رہی سہی کثر اس کا فون پر دبنگ تعارف پہلے ہی پوری کر چکا ہوتا ہے جس میں کل کا فارغ التحصیل نوجوان خود کو فنانشل ایڈوائزر کہہ کر متعارف کروا رہا ہوتا ہے۔تیسری بات جو ٹریننگ میں سکھائی جاتی ہے وہ یہ ہےکہ مین کا تعین کیسے کرنا ہے مین کا مطلب فاریکس مارکیٹ میں زرا الگ تھلگ ہے۔یہ انگریزی کے تین لفظوں کا مجموعہ ہے۔ اور اس کے ہر لفظ میں ایک مطلب چھپا ہوا ہے۔ یعنی منی ،اتھارٹی اور نیڈ جس شخص کے پاس یہ تین چیزیں یعنی پیسہ ،فیصلہ کرنے کا اختیار اور ضرورت موجود ہیں وہ آپکا کلائنٹ بن سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لڑکوں کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس پیسہ اور فیصلہ کرنے کا اختیار موجود ہو اس میں لالچ کے زریعے آپ نے ضرورت کیسے پیدا کرنی ہے۔
یہ تو تھا فاریکس بروکرز کی ٹریننگ کاکچھ احوال جو آج بھی جوں کا توں ہے جیسا کہ آج سے دس یا پندرہ سال پہلے تھا اب واپس چلتے ہیں پاکستان کے اکنامک ریفارمز ایکٹ آف 1992 کی طرف جس کی دھجیاں بکھیر کر اس کاروبار کی پاکستان میں بنیا د رکھی گئی۔یہ ایکٹ کسی اور مقصد کے لیے متعارف کروایا گیا تھا اس کا متن کچھ اور تھا مگر اس انڈسٹری کے بانیوں نے اس کو اتنے غلط انداز میں استعمال کیا کہ اللہ کی امان۔
پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ کو اگر کوئی بھی ذی شعور آدمی پڑھے گا تو اس کے رونگٹے کھڑئے ہو جائیں گے کہ اس میں تو پاکستان میں فاریکس بروکریج کے کام کی اجازت کا کہیں زکر تک نہیں ہے ۔مذکورہ ایکٹ کی شک 4 یہ کہتی ہے کہ پاکستان کا ہر شہری خواہ وہ پاکستان میں موجود ہے یا پاکستان سے باہریا کوئی بھی اور شخص پاکستان میں فارن کرنسی اپنے پاس رکھ سکتا ہےپاکستان سے باہر لے جا سکتا ہے یا پاکستان کے اندر لا سکتا ہے۔اور اس کو فارن کرنسی ڈکلریشن کی ضرورت نہیں ہو گی۔اور اسی ایکٹ کی شک 5یہ کہتی ہے کہ پاکستان کا ہر شہری خواہ وہ پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر ہے اور وہ فارن کرنسی بینک اکاونٹ رکھتا ہے تو اس کو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سےیا کسی بھی اور ٹیکس اتھارٹی سے مکمل امیونٹی حاصل ہو گی۔اور فارن کرنسی بنک اکاونٹ میں پڑا ہوا پیسہ یا اس سے آنے والا منافع بھی ویلتھ ٹیکس کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس اور زکوۃسے مستشنیٰ ہوگا۔اور اس کے ساتھ ساتھ بنک فارن کرنسی اکاونٹ ہولڈرز کو مکمل رازداری فراہم کریں گے۔اسٹیٹ بنک کے ساتھ ساتھ تما م بنک کسی بھی فارن کرنسی بنک اکاونٹ میں پیسہ جمع کروانے یا نکلوانے پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔اب اسی ایکٹ کی شک 6 تا 8 اس بات کے بارے میں ہیں کے فارن انویسٹمنٹ سے پاکستان میں بننے والی کسی بھی کمپنی کے حصص یا مکمل کمپنی کو پاکستانی گورنمنٹ زبردستی یا کسی بھی طریقے سے اپنے قبضے میں نہیں لے گی۔اور شک 9تا 11اس بات کی یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ان تمام کمپنیزیا بزنسز کے لیے تمام کاروباری لین دین کو مکمل صیغہ راز میں رکھا جاے گا۔اور گورنمنٹ تما م ان فنانشل ذمہ داریوں کو نبھائے گی جن کے پہلے سے معاہدے ہو چکے ہیں ۔اور گورنمنٹ اس ایکٹ کی ضرورت کے تما م ضروری قوانین متعارف کروائے گی۔ مجھے پورا یقین ہے کو قارئین کو بھی اس ایکٹ کا متن پڑھنے کے بعد کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی ہو گی جو پاکستان میں فاریکس بروکریج ہاوسز کے قیام کی اجازت دیتی ہو۔ مگر قارئین کرام شائد آپ لوگوں کے لیے یہ بات ایک اچنبھے سے کم نہیں ہو گی۔کہ پاکستان میں موجود تمام فاریکس ہاوسز شروع سے لیکر آج تک اسی ایکٹ کی آڑ میں کام کر رہے ہیں ۔
جب بھی کوئی بھی انویسٹر کسی بھی مارکیٹنگ کرنے والے فاریکس ایجنٹ سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا آپ کی کمپنی پاکستان میں فاریکس ٹریڈنگ کروانے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں تو اس کو یہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ جی ہاں جناب 1992 کے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ کے تحت ہم لوگ فاریکس بروکریج ہاوس پاکستان میں کام کروانے کےمجاز ہیں حالانکہ حقیقت میں ایساکچھ بھی اس ایکٹ کے تحت ہو ہی نہیں سکتا۔پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ جیہی ماں تہی ماسی کدھ ایرے تے جاسی(جیسی ماں ویسی ہی خالہ اور جب بنیاد ہی ٹیڑھی ہوتو پھر دیوار سیدھی کیسے ہو گی) اب اسی کہاوت کے مترادف جس کاروبار کی بنیاد ہی جھوٹ اور دھوکہ دہی پر رکھی گئی تھی اس سے کوئی بھلائی کی امید کیسے کر سکتا ہے۔
انشاءاللہ اگر زندگی نے موقع دیا تو اگلے حصوں میں اور بہت سی باتوں کا خلاصہ کرنے کی کوشش کرونگا کہ پاکستان میں فاریکس بروکر کیسے بنتے ہیں ان کی کتنی اقسام ہیں اور لوگوں کو جو نقصان ہوتا ہے اس سے فاریکس بروکر کتنا کماتے ہیں۔جاری ہے۔۔۔۔۔